The world of Islam awaits its over due Renaissance. At the start of the second quarter of the twenty-first century the Muslims of the world, in general, have yet to modernize and develop themselves culturally, socially and materially. This under-development and backwardness is not in keeping with the historical evolution of the World of Islam over the past Millennia and half.Through the first millennium of their history, the Muslim societies adopted scholarship, promotion of learning, culture, science, technology and a progressive attitude towards life and cultural attainments as their cardinal values and pursuits. Progressivism lay at the heart of the Muslim cultural, scientific and intellectual attainments through the glorious days of the Baghdad of the Abbasids (750-1258), the Hispanic Al-Andalus (711-1492), the Fatimids (909-1171), the Khawarzamians (1077-1231), the Ottomans (1299-1922), the Saffavids (1501-1736), The Delhi Sultanate (1206-1526), the Mughals (1526-1857) and the Sultanate of Malacca (1400-1528).
This cultural, intellectual and scientific expertise and dynamism brought, early on, extraordainary wealth and material prosperity to the Muslim societies through these glorious centuries. Within the three centuries of the arrival of the Holy Prophet Muhammad (PBUH) the Muslim World became a global power to reckon with. By the Middle- Middle Ages, Muslim civilization offered rare cultural, scientific and technological achievements to the humanity. This was the Golden Age of the Muslim civilization.
Even a cursory look at the fundamental elements of social organization in Muslim societies, through these glorious centuries, offers valuable lessons in how nations rise.
Justice, respect for human dignity, pluralistic egalitarianism and a relentless pursuit of knowledge and cultural achievements lay at the heart of the glorious achievements of the Muslim societies in the Medieval and Early Modern Eras.
Like the rest of the world at large, the Muslim societies of the Medieval to Early Modern Eras were autocracies. But even these autocracies provided a good social and economic justice to their subjects. Cultural tolerance and racial integration among various and diverse people has remained an important teaching of Islam since the age of the Holy Prophet (PBUH).
The exalted places held by the non-Arab venerable companions of the Holy Prophet such as Venerable Sulaiman Al Farsi, an Iranian, and Venerable Bilal, an Abyssinian slave, attests to the egalitarian complexion and structure of the Muslim societies of the age.
A more detailed analysis also reveals that Muslims of those times lived far healthier, organized and cleaner lives.
Degeneration and decadence did creep in, every now and then, but the vital spirit of the teachings of Islam and the intellectual, cultural and physical energy of the Muslim communities would arrest them before they brought serious disruptions or decline.
The Muslim World has witnessed an unstoppable decline through the past three centuries. This has been in stark contrast to the historic trend of the evolution of the Muslim societies. Intellectual and scientific decline and moral decadence have been the fundamental elements of the decline of the Muslim World over the past three centuries. Wester imperialism has been a huge contributor towards the decline of the Muslim World. The central causes of the decline, however, lies within the Muslim societies and cultures.
We are, ourselves, responsible for our decline in the Modern age. Our intellectual, moral and social regression has been of our own making.
The responsibility to improve our fortunes too lies with us. In our forthcoming debates we shall discuss how can we improve the cultural, social and material conditions of the Muslim World in the present. We shall also explore what role can the teachers, intellectuals, scholars, media and the various groups of the Muslim societies, “the youth in particular,” play in bringing about a twenty-first century Renaissance in the World of Islam.
Author: Fawad
I Want to develop my people.
پختونخواہ کے نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ خطے کی آبادی کا 66 فی صد اُن افراد پر مشتمل ہے جن کی عمریں ١٨ اور ٣٥ سال کے بیچ ہیں ۔ ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کی تعلیمی استعداد کرے گی ۔ ہم نے ان کی تعلیمی استعداد کی جانچ مندرجہ ذیل پیمانوں سے کرنی ہو گی:
١)ان کا شرح خوندگی کیا ہے؟ شرح خواندگی کی بین الاقوامی اور پاکستانی تعریف کیا ہے؟ کیا معاشرہ ان کی خواندگی اور مناسب تعلیم کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے یا نہیں؟
٢) پختونخواہ کے نوجوانوں میں مطالعہ کی کتنی استعداد اور رجحان موجود ہیں؟ وہ زیادہ تر کس زبان میں مطالعہ کرتے ہیں؟ وہ عموماً کس طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں؟ انھیں کس طرح کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہے ؟وہ کونسے عوامل ہیں جو پختونخواہ کے نوجوانوں کو مطالعے سے روکتے ہیں؟ پختونخواہ کے نوجوانوں میں مطالعہ کے شوق کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے؟
٣) پختونخواہ کے نوجوانوں کے لکھنے اور مناسب پیرائے میں بولنے کی کتنی صلاحیت ہے ؟ پختونخواہ کے نوجوان کن کن زبانوں میں مناسب اسلوب اور طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں؟ پختونخواہ کے نوجوانوں کو کون کون سی بینالاقوامی زبانیں بولنا آتی ہیں یا وہ اُن میں لکھ سکتے ہیں؟
٤) Mathematics, Computers, Basic Science, Basic Finance, Artificial Intelligence, Time Management, یہ سب دور جدید کے ضروری علوم اور مضامین ہیں ۔پختونخواہ کے نوجوان دور جدید کے ان اہم ترین مضامین میں کتنی استعداد اور دسترس رکھتے ہیں؟
٥) آپ کے خیال میں پختونخواہ کے نوجوانوں کی تعلیمی استعداد اور قابلیت بڑھانے کے لیے کونسے چھ اہم ترین اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ؟
ہماری رائے میں پختونخواہ کے نوجوانوں کے تعلیمی مسائل کاحل ان بنیادی سوالوں کے جوابات میں مضمر ہے۔ آئیے مل کر ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں اور اپنی سمجھ بوجھ اور اجتماعی فہم کی روشنی میں اپنے نوجوانوں کے تعلیمی مسلے کو حل کریں ۔
گزشتہ ربع صدی میں پختونخواہ کو انسانی ترقی کے میدان می میں تباہ کن زوال اور بحران کاسامنا کرنا پڑا ہے ۔ صاف سھری خوراک تک رسائی , تعلیم, صحت, صفائی کا جامع نظام,ٹرانسپورٹ, جرائم اور بد عنوانی کاخاتمہ, فعال عدلیہ, شفاف ادارے, یہ سب انسانی ترقی کی بنیاد ڈالنے والی اکائیاں ہیں ۔ ان کا انحصار اچھے انتظام پر ہوتا ہے ۔ جدید ریاستی امور کی اصطلاح میں انھیں گڈ گورننس یا اچھا انتظام کہتے ہیں۔ ہم نے دہکھنا ہے کہ پختونخواہ میں انتظامی صورتحال کس طرح کی ہے اور گزشتہ ربع صدی میں اس پر زوال اور بحران کیسے آئے۔ کسی بھی معاشرے میں اداروں اور انتظام کی بہتر کار کردگی کے لیے بیدار, منظم اور, جتنا ممکن ہو, تعلیم یافتہ عوام کاہونا ضروری ہے ۔ غیر منظم,غافل اور ان پڑھ عوام کو آسانی سے دھوکہ بھی دیا جا سکتا ہے اور ڈرایا دھمکایا بھی جاسکتا ہے ۔ اس طرح کی عوام کے حقوق چوری کرنا کسی بھی اشرافیہ کے لیے بے حد آسان ہوتا ہے ۔ ایسی عوام کی مثال جانوروں کی ایک تابع اور محکوم ریوڑ کی سی ہوتی ہے جن پر بھیڑیوں اور زیادہ طاقتور جانوروں کاکوئی بھی غول یا جتھہ آسانی سے حملہ آور ہوسکتا ہے ۔ ایسی عوام ایک محکوم اور مغلوب رعایاتو بن سکتی ہے لیکن کوئی محترم, خود مختار اور ذمہ دار شہری نہیں۔ ریاستی اداروں سے اسطرح کی رعایا مناسب خدمات اور اچھی کارکردگی نہیں حاصل کر سکتی ۔ ایسی رعایا پر مشتمل معاشروں میں ریاستی ادارے وفت گزرنے کے ساتھ عوامی خادموں سے بدل کر افسر شاہی بن جاتے ہیں۔ یہ عوام الناس کی خدمت کرنے کی بجائے ان پر حکومت اورچان سےلوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند دہائیوں میں پختونخواہ کے عوامکواسی طرح کی صورتحالکا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ اداروں کی کارکردگی کا بحران پختونخواہ میں انسانی ترقی کے بحران کی ایک بڑی وجہ بن کر ابھرا ہے ۔ پختونخواہ میں اداروں کی اصلاح , فعالیت اور خطے میں انسانی ترقی کے بحران کےخاتمے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ عوامی بیداری, تنظیم اور جدوجہد ایسے کسی بھی منصوبے کے بنیادی اجزاء ہوں گے۔ نوجوان پختونخواہ کی آبادی کا اکثریتی حصہ ہیں ۔ ان کی تربیت اور تنظیم کسی بھی بڑے معاشرتی مقصد کے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔ پختونخواہ میں انسانی ترقی کے بحران کے خاتمے اور اداروں کی اصلاح اور تشکیل نو کے لیے نوجوانوں پر مشتمل علاقائی سطح پر منظم جدوجہد وقت کی سب سے بڑیضرورت بن چکا ہے۔ ہم نے دیکھنا یہ ہےکہ ہم اپنے نوجوانوں کو کتنی جلد ایسی جدوجہد کے لیے تیار اور منظم کرکے میدان میں اتار سکتے ہیں ؟ یاد رکھیں مہزب, شریف, منظم اور تربیتہ یافتہ نوجوان ہی پختونخواہ کے مسائل کے سب سے اچھے حل نکال سکتے ہیں۔ اس جدوجہد میں ان کی رہنمائی,تنظیم اور مدد کرنا ہم سب کی اجتماعی قومی ذمہ داری ہے
بلوچستان میں ٹڈی دل کے حملے کے نتیجے میں صورتحال انتہائی مخدوش ہیں۔ قومی ادارہ برائے انسدادِ قدرتی آفات کی اطلاع کے مطابق بلوچستان کے ۳۱ اضلاع میں فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان کی زراعت پہلے ہی آبی وسائل کی کمی، کسانوں کی غریبی، زرعی زمین کا مستقل جغرافیائی انحطاط اور حکومتوں کی طرف سے خاطر خواہ توجہ نہ ہونے کے سبب پسماندگی کا شکار ہے۔ حالیہ ٹڈی دل کا حملہ بلوچستان کے کسانوں کو شدید بحران میں ڈال گیا ہے۔ صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بروقت جامع انسدادی کاروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ آفت زدہ علاقوں میں اسپرے کرایا جائے، کسانوں کے نقصان کا ازالہ کرایا جائے اور اُن کی معاشی صورتحال مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے متاثرہ اضلاع کے کسانوں کے لیے جامع معاشی امداد فراہم کی جائے۔